چ
یہ فقیرخبیب زاہدانیس سواٹھترمیں پنجاب کےقصبہ جڑانوالہ کےنواحی گاؤں چک نمبر23گ ب میں پیداہوا۔ والد مولانامحمدعلی حامدشیخ الحدیث تھے۔انیس سوترانوےمیں میٹرک اورانیس سو اٹھانوےمیں ایم اےکاامتحان پاس کیااوردوہزاردومیں لیکچرارمقررہوا۔دوہزارچارمیں پہلی کتاب (اسلام کابےباک سپاہی)شایع ہوئی۔دوہزارپانچ میں ان کی کتاب"مسلمانوں کی ایمان افروزکہانیاں "کونیشنل بک فاؤنڈیشن کاایوارڈملا۔ شاعری پرجی سی یونیورسٹی فیصل آبادکی طرف سےایم فل کاایک مقالہ طالب علم افتخارحسین نےدوہزاراکیس میں لکھا۔اب تک جوکتابیں چھپیں وہ یہ ہیں۔
،اسلام کابےباک سپاہی(سوانح)2004
مسلمانوں کی ایمان افروزکہانیاں،2005
علماء کےواقعات،(مرتبہ)2095
سبق پھرپڑھ صداقت کا،2006
غمِ آئنہ(شعری مجموعہ)2014
مطلعِ درد(شعری مجموعہ)2017
جستجوکاقدم(نفسیات پر مضامین)20017
سورج آنکھ کاقیدی(گہرپارے)20017
دشتِ آشوب(افسانے)20017
زخم زخم تماشا(شعری مجموعہ)2019
عرفانِ آیات(منظوم مفاہیمِ قرآنی)2023
سرِ لامکاں پیمبر(مجموعہ نعت)2023
یہ شام غنیمت ہے(شعری مجموعہ)زیرِ طبع
اردوکےعلاوہ پنجابی اورعربی شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔مزاحیہ شاعری کےعلاوہ قومی اُخبارروزنامہ جناح میں کالم بھی لکھے۔
شاعری کےساتھ ساتھ خطابت بھی کی اورموٹیویشنل لیکچرزبھی۔حال ہی میں اقبال سےشکوہ سےمتاثرہوکر99 بندوں مشتمل ایک شکوہ بھی لکھا۔
حقیقتِ آدم
غبارِ خاک بداماں ، یہ داغِ بدنامی
یہ خاکِ ہند و بخارا و رومی شامی
جنابِ آدم و حوّا کی نوعِ انسانی
تمام خِلقتِ عالم کو تاب کیا لانی
بس ایک ہجرِ بفردوس ، درد رکھتا ہے
ذرا وجودِ بریشم میں گرد رکھتا ہے
یہ فرشِ خاک پہ رہ کر یہ عرش پروازی
کُریدے کون سا گستاخ ، سینہِ رازی
یہ دھان پان وجود اور موت کی بازی
ہے کیسا مرگ بکف آدمی کا یہ ماضی
یہ خانہ برباد سب کو امان دیتا ہے
ذرا سی جان ہے لیکن یہ جان دیتا ہے
یہ سازِ برقِ تحرُّک ، یہ خاک کا پُتلا
کمالِ کارِ نمایاں ، یہ کام ہے اس کا
نہاں جہانِ کمالات ، خاکدانِ سِوا
یہ خانہ ساز جمالِ فلک سماں ، اعلی
یہ آفتاب ، یہ محسود و ہدفِ شیطانی
نگاہِ عرشِ معلّے ، نقیبِ رحمانی
نہاں حقیقتِ آدم ، بنائے آدم سے
زبانِ خلقِ ہے عاجز ، ثنائے آدم سے
سماعِ ارض ہے مملوّ، صدائے آدم سے
جزائے خلق جہاں نے چرائے آدم سے
اسی کے نقش سے دنیا میں رات دن آئے
نہیں وجود میں لمحے اسی کے بن آئے
یہ کائنات وجود اس کی پائدار کہاں
اور اس کی طبعِ تلوُّن کا اعتبار کہاں
ہے پل سے بڑھ کے مسرت کا انتظار کہاں
پر اس کی عجلتِ فطرت کو اختصار کہاں
ٹھکانہ اس کے سفر کا یا جستجو کا نہ شد
کہ اس کا مقطع تمنا یا آرزو کا نہ شد


Δεν υπάρχουν σχόλια:
Δημοσίευση σχολίου