Τετάρτη 1 Μαΐου 2024

Urdu poetry by Moheen Khan

 


غزل
یا کوئی خواب مری آنکھ میں اٹکا ہوا ہے
یا کوئی اشک سر راہ اچھالا ہوا ہے

سانس لیتا ہوں تو آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے
ایک جنگل میرے اندر کہیں سلگا ہوا ہے

ورنہ کتنے ہی مناظر تھے سمندر جیسے
میں نے آنکھوں سے گرایا ہے تو صحرا ہوا ہے

مل تو جائے گی تجھے سانولی لڑکی لیکن
شہر کے کونے تلک گاؤں بھی پھیلا ہوا ہے

میرا ذاتی تھا مکان اس میں میں رہتا تھا کبھی
اب یہ میرا ہے نہ میں نےاسے بیچا ہوا ہے

روز فٹ پاتھ پہ آ جاتے ہو تم بھی اے دوست
جیسے گھر والوں نے تم کو بھی نکالا ہوا ہے

ایک دن آنکھ سے باہر بھی نکل آۓ گا 
خوف جو خواب کے اندر کہیں پھیلا ہوا ہے

موڑ سکتا ہوں میں بپھرے ہوئے دریاؤں کو
میں نے اجداد سے یہ کام بھی سیکھا ہوا ہے

بھوک سے پھر بھی سبھی لوگ مرے جاتے ہیں 
من و سلوا بھی ترے شہر میں اترا ہوا ہے

میں غرض کیسے جتاؤں بھلا اب اس کو معین
ہے تو انسان مگر پیسوں نے بدلا ہوا ہے
معین بلوچ ( شہر ناز خیالوی ،تاندیانوالہ ،فیصل آباد)







Δεν υπάρχουν σχόλια:

Δημοσίευση σχολίου