Παρασκευή 23 Φεβρουαρίου 2024

Urdu Poetry by Muhammad Imran

 

Muhammad Imran Jafar Khachi was born on November 6, 2000 in village Chak 418 Gb, a Tandlianwala.


تم بھی یار کمال کرتے ہو
مجھ سے اپنے ہی بارے میں سوال کرتے ہو
کیا بتاؤں کہ کیا ہو تم
میرے لیے تسکین نگاہ ہو تم
تم تو ہو ہیروں کی مانند
اور میں ہوں فقیروں کی مانند
مجھے ہے دیدو چاہ تیری
تجھے ذر ا بھی نہیں پرواہ میری
تم میری موجودگی سے گھبراتے کیوں ہو
تم میرے ساتھ سے یار کتراتے کیوں ہو
اتنا بھی یار برا نہیں ہوں میں
بتاؤ اگر تمہارے ساتھ کھڑا نہیں ہوں میں
تمہارے لیے خود کو سزا دی میں نے
یاد تیری ہے تھی جو بھلا دی میں نے
بتاؤ جو بات میری سچی نہیں ہے
اتنی بھی بے رخی اچھی نہیں ہے
تم نے تو فقط ایک اشارہ کیا
اور میں نے سارے جہان سے کنارہ کیا
ٹسوے تو اب ہم بہانے سے رہے
اپنے غم زمانے کو سنانے سے رہے
اب تو سن لے فریاد تو میری
زندگی نہ کر برباد تو میری
کچھ حسیں لمحے مجھے گزارنے دے
زلفیں اپنی تو مجھے سنوارنے دے
کچھ تو میرا بھی حق بنتا ہے تجھ پر
اور ہاں ، بے شک بنتا ہے تجھ پر
نہ کر یوں ذلیل و رسواء مجھ کو
کوئی تو لا دے تو دوا مجھ کو
کوئی ایسی دوا جس سے مجھے شفا ہو
کیا ہی ہو جو تیرے ہونٹوں کا تل سیاہ ہو


از محمد عمران جعفر کھچی









Δεν υπάρχουν σχόλια:

Δημοσίευση σχολίου