Σάββατο 6 Ιανουαρίου 2024

Poet Mohsin Raza Khan Kharl

 


His Urdu poem 

نظم ۔۔۔ بانجھ
جونہی اپنا خلفشار بدن بھرا زہر
اس نے مری رگ و پے میں اتارا
اپنے مضبوط بازوں کی گرفت سے
آزاد کرتے ہوئے
اسکی خمار آ لود آ نکھیں
اک ناتواں مگر باوفا شریکِ سفر کو
سر تا پا تسخیرِ بدن کر کے
اعلان مردانیت کر رہی تھیں
تو مجھے ایسا محسوس ہوا
سیراب ہوئی مردہ بدن کی زمیں
یک لخت جوان ہوا مرا پیکر غمگیں
خود سے شرماتے ہوئے
بکھرے بال باندھتے ہوئے
میں نے اک آ رزو مصور کائنات سے کی
کہ اب کی بار مری بنجر کوکھ
جو صدیوں سے اک ننھے وجود کی
تکمیلِ نو خاطر
بے وقت وجود مشقت اٹھاتی ہے
فرصت معشوق مجازی کے بعد
ٹوٹا پھوٹا انگ سہلاتی ہے
آ سمانوں سے اترتی نومولود فرشتہ سیماب
روح اپنے سینے پر سلاتی ہے
یہ سوچتے ہوئے مسکراتی ہے
کہ جب معصوم قلقاریوں کی صدائیں
مری صدیوں ترسی سماعت میں
شیریں رس گھولیں گی
تو ننھے وجود کا لمس
مرے وجود کی ساری تھکن اتار دے گا
ماں ، ماں ، ماں ، پکارے گا
مگر اک روز ٹوٹا
یہ طلسم و وہم و گماں
مری عمر بھر کی رفاقتیں بھول کر
اس مرد جفا کار نے
مطلبی بے زار نے
اعلان بغاوت مجھ ناتواں سے کیا
مرکز وجہ تخلیق انساں
خود کو ثابت کیا
وہ کرخت لہجہ پگھلے سیسے کی مانند
مری سماعت میں اترا
تم بانجھ ہو ، تم بانجھ ہو
بکھر چکا سنتے ہی مرا وجود زن
پڑ گئی مرے ریشمی لبوں پہ کمند
یا خدا ، یاخدا یہ کائنات ممنبع ممکنات ہے
یاں لالہ و گل ارض و شجر دریا سمندر
بانجھ ہو چکے ، تو انسان بانجھ نہیں ہوسکتا ؟؟؟ 
سن اے پندار بھرے بت
اے نوخیز جوبن کے پجاری
کیا تو بانجھ نہیں ہوسکتا
کیا تو بانجھ نہیں ہوسکتا







Δεν υπάρχουν σχόλια:

Δημοσίευση σχολίου