غزل
یا کوئی خواب مری آنکھ میں اٹکا ہوا ہے
یا کوئی اشک سر راہ اچھالا ہوا ہے
سانس لیتا ہوں تو آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے
ایک جنگل میرے اندر کہیں سلگا ہوا ہے
ورنہ کتنے ہی مناظر تھے سمندر جیسے
میں نے آنکھوں سے گرایا ہے تو صحرا ہوا ہے
مل تو جائے گی تجھے سانولی لڑکی لیکن
شہر کے کونے تلک گاؤں بھی پھیلا ہوا ہے
میرا ذاتی تھا مکان اس میں میں رہتا تھا کبھی
اب یہ میرا ہے نہ میں نےاسے بیچا ہوا ہے
روز فٹ پاتھ پہ آ جاتے ہو تم بھی اے دوست
جیسے گھر والوں نے تم کو بھی نکالا ہوا ہے
ایک دن آنکھ سے باہر بھی نکل آۓ گا
خوف جو خواب کے اندر کہیں پھیلا ہوا ہے
موڑ سکتا ہوں میں بپھرے ہوئے دریاؤں کو
میں نے اجداد سے یہ کام بھی سیکھا ہوا ہے
بھوک سے پھر بھی سبھی لوگ مرے جاتے ہیں
من و سلوا بھی ترے شہر میں اترا ہوا ہے
میں غرض کیسے جتاؤں بھلا اب اس کو معین
ہے تو انسان مگر پیسوں نے بدلا ہوا ہے
معین بلوچ ( شہر ناز خیالوی ،تاندیانوالہ ،فیصل آباد)
Δεν υπάρχουν σχόλια:
Δημοσίευση σχολίου