Παρασκευή 5 Απριλίου 2024

Article in Urdu by Muhammad Imran Anjum

 



السلام علیکم محترم قارئین
آج ادبی سیشن میں آپ کی ملاقات ملک کے ایک نامور اور تیزی سے ابھرتے ہوئے ادیب اور کالم نگار سے کرواتے ہیں۔ ان کا نام ادبی دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ اوپر آ رہا ہے ۔ بہت ہی کم وقت میں انہوں نے اپنا ایک نام بنایا ہے ۔ آج کے دور میں جب کتاب اور قلم کے ساتھ بہت کم لوگ پیوستہ رہ گئے ہوئے ہیں اس دور میں بھی ادبی مشاغل کو اپنی زندگی میں جگہ دینا اور ادب کی خدمت کرنا ایک بہت بڑا کام ہے ۔
اس شخصیت کا قلمی نام انجم ہے جبکہ ان کا پورا نام محمد عمران انجم ہے ۔ ضلع راولپنڈی کی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، اپنی ابتدائی تعلیم انہوں مقامی گورنمنٹ سکول سے حاصل کی ، سکول میں اچھے اساتذہ کا ساتھ میسر رہاتب ہی سے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ، گھر میں بھی تعلیم کے حوالے سے کافی اچھا ماحول ملا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سکول کی نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب کا بھی مطالعہ شروع کر دیا، یہی وجہ ہے کہ سکول میں بھی ان کی پڑھنے کی صلاحیت باقی بچوں کی نسبت بہتر اور مشکل الفاظ کی ادائیگی بھی بڑے آرام سے کر لیتے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم سکول سے حاصل کی اس کے بعد حالات کے مدنظر انہوں نے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور اپنی باقی تعلیم وہاں سے حاصل کی ۔ اس دوران ادب اور اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ محبت کی وجہ سے انہوں نے ایم اے اردو ادب میں کامیابی حاصل کی ۔ 
ادب میں انہوں نے خاص طور پر افسانے کو اپنا تختہ مشق بنایا اور ادب کی اس صنف میں کام کر رہے ہیں ، آج کے اس دور پر آشوب میں جب ہر انسان اپنی زندگی میں بہت زیادہ مصروف ہے تو ایسے میں لمبے لمبے ناول لکھ کر معاشرتی اصلاح اور معاشرے میں ادبی لگاؤ پیدا کرنا کافی مشکل کام ہے اس لئے عمران صاحب نے اردو افسانے کو اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے منتخب کیا ، گو انہوں نے افسانہ لکھنا ابھی تھوڑی پہلے سے شروع کیا ہے ، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ان کے قلم میں روانگی اور منظر کشی کی پختگی حد درجہ تک پائی جاتی ہے ۔ 
یہی وجہ ہے کہ ان کی ادبی نگارشات کا مطالعہ کرتے وقت بالکل بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ ادبی دنیا میں ایک نیا نام ہے، بلکہ ان کی ہاں جملوں کی بناوٹ اور ثلاثت میں پختگی اور روانی پائی جاتی ہے ۔ ان کی منظر کشی کمال درجے کی ہے۔ ایک ادیب چونکہ اپنے معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے اور وہ اپنے گردونواح میں ہونے والے واقعات اور حالات کا چشم دید گواہ بھی ہوتا ہے بس اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کو معاشرے کی اصلاح اور قارئین کو ایک معیاری ادب فراہم کرنے کی اپنی سی سعی کرتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی عمران انجم صاحب نے بھی اپنی تحریروں میں معاشرتی حالات و واقعات کو خصوصی موضوع بنایا ہے ، آج معاشرے میں چونکہ اخلاقی گراوٹ بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے تو ایسے دور میں معاشرے میں پھر سے اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا پرچار کرنا اور اخلاقی روایات کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں تقریباً ہر ادیب کے ہاں ہمیں اپنے معاشرے کو لے کر ایک تشویش پائی جاتی ہے کہ کسی طرح ہمارے سب لوگ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے اپنانے والے ہو جائیں اس کے ساتھ ساتھ سب لوگ پہلے کی طرح کتاب کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کر لیں، کیونکہ کتاب ہمارے اندر بہت سے مثبت عوامل پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔








Δεν υπάρχουν σχόλια:

Δημοσίευση σχολίου